Tuesday, November 19, 2013

سدا رہے گا حُسین کا غم


سدا رہے گا حُسین کا غم

یہ شورِ گریہ یہ شورِ ماتم
سنی ہوئی داستانِ پیہم
اک آہ بن کر اُبھر رہی ہے
وہ کربلا کی صدائے پُرنم
سدا رہے گا ۔۔۔

اُٹھے جو ظلم و ستم کے جھونکے
سوال یہ تھا کہ کون روکے
حُسین ابنِ علی کے در پر
جمی ہوئی تھی نگاہِ عالم
سدا رہے گا ۔۔۔

بڑھا جو حد سے غرورِ باطل
تڑپ اُٹھا پھر حُسین کا دل
چلا حرم کو وطن سے لے کر
ندائے زینب بنا کہ پرچم
سدا رہے گا ۔۔۔

اصولِ فکر و عمل کو موڑا
یزیدیت کے فسوح کو توڑا
ہر ایک دیوارِ ظلم ڈھا کر
بنا گیا دیں کا قصرِ محکم
سدا رہے گا ۔۔۔

جفائوں کا دل ہلا کہ اُٹھا
جو قبرِ اصغر بنا کہ اُٹھا
جواں کی میت پہ مُسکرا کر
بدل گیا فکرِ نسلِ آدم
سدا رہے گا ۔۔۔

سنبھل کے ٹوکے ہمیں زمانہ
گزر گیا دورِ تعزیانہ
بغور سُن لیں جہان والے
اب اس عالم کے ہیں پاسبان ہم
سدا رہے گا ۔۔۔

نہ رُک سکی ہے نہ رُک سکے گی
اعزائِ مظلوم کیا لٹے گی
دلوں کی ہر اک دھڑکنوں سے
اُبھر رہی ہے صدائے ماتم
سدا رہے گا ۔۔۔

I am on Flickr Instagram You Tube